Let change our airport first

تبدیلی کا آغاز ایئرپورٹ سے
                          ------------------------------------
یہ 15 اگست 2018 کی بات ہے ۔ میں اور میرے ایک دوست رات تقریباً 8 بجے کے قریب اسلام آباد نئی ایئرپورٹ کے دروازے پر پہنچ چکے تھے ۔ ٹیکٹ اور پاسپورٹ دیکھنے کے بعد سامان کی سکریننگ ہوئی ۔ جامہ تلاشی کے بعد میں تھوڑا آگے نکل کر بورڈنگ پاس لینے کاونٹر کی طرف رواں تھا،  پیچھے موڑ کر دیکھا دوست کو اے پی ایس سکیورٹی اہلکاروں نے روک رکھا تھا۔ میں بھی واپس آیا کہ کوئی مسئلہ نہ ہو، ائرپورٹ پر ویسے بھی بندے کو ایسے چیزوں سے ڈر لگتا ہے۔مزے کی بات یہ کہ یہی سامان بیس قدم فاصلے پر چیک ہو چکا تھا ۔ دوست کے سامان میں خشک میوہ جات (پیستہ) اور مٹھائی رکھی ہوئی تھی۔ کہہ رہے تھے مٹھائی ہینڈ کیری میں اجازت نہیں اور ھاں یہ خشک میوہ بھی زیادہ لگ رہا ہے اسکو بھی کم کرلو۔ اس دوران بغیر پوچھے ان میں سے ایک پیستوں کے مٹھی بھر رھا تھا، یہ دیکھ کر دل ہی میں بڑا غصہ آرہا تھا لیکن اس خوف سے کہ یہ کچھ نہ کچھ مسئلہ کھڑا کر دیں گے،  کچھ کہ نہ سکے۔ یہ کہہ کر ان سے جان چھڑائی کہ کاونٹر پر سامان ایڈجسٹ کر دیں گے۔ عرض مگر یہ ہے کہ بغیر اجازت کے وہ ھمارے سامان سے کھا کیوں رہا تھا۔ دوسری بات وہ جھوٹ بول کر سامان کے حوالے سے ہمیں پریشان کیوں کرہا تھا۔ اس بلاوجہ سکیورٹی کے نام پر روکنے اور سامان کھولنے کی وجہ سے ھم تقریباً آدھا گھنٹہ دیر سے کاونٹر پر پہنچنے میں کامیاب ہو گئے۔ ایئرپورٹ اگرچہ نیا تھا مگر شور غلغلہ وھی پرانا۔ جہاز اڑنے میں قریباً پچاس منٹ رہتے تھے لیکن قطار ابھی تک لمبے تھے،  ھم آپس میں کہہ رہے تھے کہ آج کیا وجہ ہے اتنا آہستگی سے چیک ان ھو رھا ھے کوئی کچھ نہیں بتا رہا تھا۔ ھمارے ساتھ دوسرے قطار میں کچھ باہر ملک والے ھم سے زیادہ پریشان دیکھائے دے رہے تھے۔ جب وقت بالکل ختم ھونے لگا تو ایک اہلکار کہنے لگا کہ جہاز ایک گھنٹہ تیس منٹ تاخیر سے اڑے گا۔ اے پی ایس سکیورٹی کے بعد یہ دوسرا غیر پیشہ ورانہ رویہ تھا جو نئے ائرپورٹ پر ھمارے ساتھ رونما ہوا۔ کاونٹر کے بالکل قریب پہنچے تو اعلان ہوا کہ ہر کوئی اپنے ساتھ تین سو روپے تیار رکھ لیں کہ یہ ایئرپورٹ کا ٹیکس ہے۔ میری باری آئی تو کہنے لگے تم چھ سو روپے دے دو، میں نے پوچھا چھ سو کیوں، کہنے لگے سسٹم بتا رہا ہے  میں نے کہا میرے پاس چھ سو  روپے نہیں صرف تین سو روپے ہے ۔ کہنے لگے مجھے نہیں معلوم لیکن چھ سو دینے ھیں،  ساتھ ہی یہ بھی کہہ دیا کہ اپنے دوست سے لے لو،  اس نے دوست کے ساتھ دیکھ رکھے تھے۔ یہ تیسرا موقع تھا جو ظاہر کرھا تھا کہ دال میں کچھ کالا ھے۔ ساتھ میں دیکھا دوست اپنے سامان میں کچھ ردوبدل کر رہا ہے پوچھا کیا کررہے ہو،  بتایا کہ دو کلو وزن زیادہ ہے،  میں نے پوچھا کہ تمھارا سامان تو زیادہ نہیں تھا جب ہم نے تولا تھا،  کہنے لگا کہ لیپ ٹاپ کا وزن بھی شمار کر ہا ہے۔ زندگی میں پہلا ایئرپورٹ دیکھا جو لیپ ٹاپ کا وزن بھی شمار میں لا رہا تھا۔ مسافروں کو تنگ کرنے کا یہ چوتھا مظاہرہ جو نئے ایئرپورٹ پر ھمارے ساتھ رونما ہوا ۔ معاملہ ابھی ختم نہیں ہوا۔آگے جاکر امیگریشن والوں نے روکا انہوں نے ایک دوسرا مسئلہ کھڑا کیا وہ یہ کہ ھمارے سامان میں گھر والوں نے گھر کا بنایا ہوا سالن مسالہ رکھا ھوا تھا۔ کہہ رہے تھے اسکی اجازت نہیں حالانکہ اس سے پہلے ھم کئی بار لے جا چکے تھے۔ خلاصہ یہ کہ وہ سارا مسالہ ان کے حوالے کیا اور ادھر سے چل پڑے ۔یہ پانچواں موقع تھا جب ہمیں لگا کہ ھمارے ساتھ شاید صحیح نہیں ہوا۔
مختصراً ایئرپورٹ تو نیا بنا چکے لیکن تربیت سے عاری وہی پرانے لوگ بےسود پرسودہ طور طریقے استعمال کرتے ہوئے نظر آئے ۔ کہتے ہیں کہ ایئرپورٹ کسی بھی ملک کا چہرہ ہوا کرتا ہے ۔مطلب یہ کہ جب باہر سے لوگ ملک آتے ہیں تو ان کا سب سے پہلے واسطہ ایئرپورٹ میں موجود لوگوں سے اور ارد گرد ماحول سے ہوتا ہے جس سے ان کو ملک کے بارے ميں ایک تاثر ملتا ہے کہ لوگوں کے روش و نظم وضبط و صفائی ستھرائی کا حال کیا ہے۔ بےشک ملک چاہے جتنا بھی اچھا ہو لیکن یہاں سے گزرنے کے بعد وہ بدگمان ہو جاتے ہیں ۔ میں ذاتی طور پر یہ سمجهتا هوں کہ باقی اداروں کا تو بعد میں لیکن ایئرپورٹ کے عملے کی تربیت کا فوری طور پر بندوبست کرنا چاہئے۔ خان صاحب اپنے اپ کے بعد تبدیلی کا آغاز ایئرپورٹ سے۔
#PTI,  #ImranKhan,  #ShaheryarAfridi

Comments

Popular posts from this blog